Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


”یہ مما نے کیا کہا تھا…؟“ لوازمات کی پلیٹ اس نے کانپتے ہاتھوں سے رکھ دی تھی  دل کی دھڑکن تھی کہ بڑھتی ہی چلی گئی تھی۔ ذہن میں آندھی اٹھی تھی۔ سیاہ آندھی!

”مما! کیا کہا آپ نے؟“ وہ بہت دھیمے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ ”کس جرم کا اعتراف کر رہی ہیں آپ کو معلوم ہے؟“

”ہاں! مجھے معلوم ہے  جو گناہ مجھ سے ہوا  جو جرم میں کر بیٹھی ہوں اس کی سزا میں بھگت رہی ہوں  گناہ انجانے میں ہو یا جان کر سزا برابر ملتی ہے مثنیٰ! کاش میں اس وقت ضدی نہ بنتی  تمہارے فیصلے کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بناتی تو آج سب اچھا ہوتا۔
نہ میں بے سکونی کی سزا کاٹ رہی ہوتی اس طرح نہ تم زندگی کو کسی جنازے کی طرح کاندھے پر رکھ کر جینے پر مجبور ہوتیں اور نہ پری وہاں ماں کے ہوتے ہوئے بھی ماں کی محبت کو ترس رہی ہوتی۔
(جاری ہے)

میری صابر بچی!“ عشرت جہاں رونے لگیں ان کے چہرے پر پچھتاوے و ملال کے گہرے رنگ تھے  وہ رو رہی تھیں اور مثنیٰ سرد نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ان کا چہرہ سپاٹ تھا اور آنکھوں میں ٹھہرا ہوا سکوت… انہوں نے عشرت جہاں کو رونے سے روکا اور نہ ہی ان کے آنسو صاف کئے  وہ اسی ساکت انداز میں بیٹھی تھیں گویا ان سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

نامعلوم کتنی دیر تک وہ روتی رہی تھیں اور پھر خود ہی آنسو پونچھے تھے اپنے۔ پھر عینک لگاتے ہوئے مثنیٰ کی طرف دیکھا تھا جو خاموشی کا قفل ہونٹوں پر لگائے چھت کو گھور رہی تھیں۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا  آنکھوں میں نمی تک نہ تھی  یہ ان کی وہ بیٹھی تھی جس نے ان کے ایک آنسو کے ساتھ ڈھیروں آنسو بہائے تھے۔ ان کے درد میں تڑپ تھی  جو ان کو ذرا سا بھی اداس و رنجیدہ نہ دیکھ سکتی تھی اور آج وہ ہی بیٹی تھی جو پتھر بنی بیٹھی تھی اور اس کو پتھر بنانے میں سراسر ان کی زیادتی تھی  جس کا احساس انہیں وقت گزرنے کے ساتھ ہوا تھا۔

”مثنیٰ!“ وہ اٹھ کر ان کے قریب چلی آئیں۔ ”تم نے ابھی تک مجھ کو معاف نہیں کیا؟ تم سے میں بارہا معافی مانگ چکی ہوں  کیا اپنی ماں کو وہ گناہ معاف نہیں کرو گی؟“ ان کی انگلیاں ان کے بالوں میں لرز رہی تھیں  ممتا بھرے لہجے میں شرمندگی تھی۔

”میں نے آپ کو بہت پہلے معاف کر دیا تھا مما!“

”لیکن تمہارے رویے سے تو نہیں لگتا کہ تم نے معاف کر دیا ہے مجھے۔

”رویہ بدلنا بھی چاہوں تو شاید بدل نہیں پاؤں  جیسے کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو برسوں گزرنے کے بعد بھی ہرے رہتے ہیں  ایسے ہی رویے بھی ہوتے ہیں۔“

”میں نے بارہا تم سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے مثنیٰ! ماں ہو کر“

”لیکن ماں ہو کر جو آپ نے میرے ساتھ کیا  وہ کوئی ماں نہیں کر سکتی۔ کیا آپ کا اعتراف میرے اس ٹوٹے رشتے کو جوڑ سکا؟ کیا آپ کی معافی نے میری پری  میری بیٹی کا بچپن لوٹا دیا؟ جواب دیں مما! یہ احساس گناہ کرنے سے قبل یا گناہ کرتے وقت کیوں نہیں جاگتا؟ جرم کرنے کے بعد ہی کیوں اعتراف کیا جاتا ہے آپ کہتی ہیں میرا رویہ درست نہیں ہے لیکن یہ سب آپ کی دی ہوئی عنایتیں ہیں۔
“ وہ جو پہلے ہی ایک اذیت سے گزر رہی تھیں  اب فیاض کے نام نے ان اذیتوں کو بڑھا دیا تھا  وہ اندر ہی اندر بن جل کر مچھلی کی مانند مچلنے لگی تھیں۔

فیاض! وہ نام تھا جو ان کی زیست کا عنواں تھا۔

جس کے دم سے ان کو زندگی کے معنی سمجھ آئے تھے۔

اور جب وہ گیا تو ساتھ وہ معنی بھی لے گیا  دل بھی لے گیا اور جذبے بھی۔

”آئی ایم سوری مما! پلیز مجھے تنہا چھوڑ دیں۔
“ اس نے سر پکڑتے ہوئے کہا۔

###

کالج سے واپسی پروہ تھکے تھکے قدموں سے بس اسٹاپ کی طرف جا رہی تھی معاً سائیڈ سے آنے والی کار اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی۔ اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا ڈرائیونگ سیٹ پر جویریہ کا بھائی اعوان بیٹھا ہوا تھا‘ اس کو دیکھ کر ماہ رخ کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی اور اس کو اعتماد سے مسکراتے دیکھ کر اس شخص کے لبوں پر بھی مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔
اس نے کار روک کر اگلا دروازہ کھول دیا۔

”آیئے آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں  شاید آپ کی گاڑی نہیں آئی ہے۔“ اس نے جھک کر ماہ رخ سے کہا۔

”شکریہ مسٹر اعوان! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں واقعی میری گاڑی نہیں آئی ہے۔“

”پھر تکلف کس بات کا! آیئے یہ بھی آپ ہی کی گاڑی ہے۔“ وہ پر اخلاق لہجے میں دعوت دے رہا تھا۔

”ارے نہیں! میں چلی جاؤں گی آپ کو خوا مخواہ زحمت ہو گی۔
“ ماہ رخ کا مارے خوشی کے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

”پلیز آئیں مجھے کوئی زحمت نہیں ہو گی بلکہ خوشی ہو گی۔“

ماہ رخ ایک ادا سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی تو اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

”خدا کا شکر ہے آپ نے مجھے پہچان لیا ورنہ میں ڈر رہا تھا اگر آپ نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا تو بے عزتی ہو جائے گی۔“ اعوان ماہ رخ کی طرف دیکھ کر شوخی سے بولا۔

”یہ آپ نے کس طرح سمجھ لیا کہ میں آپ کو پہچان نہ پاؤں گی؟ دو بار آپ کے گھر پر آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔“ وہ مسکرا کر گویا ہوئی۔

”لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے نظر انداز کرنے کی  وہ گھر میں کچھ ہوتی ہیں اور گھر سے باہر کچھ اور“ اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔

”میں کیا آپ کو ایسی لڑکی لگتی ہوں اعوان صاحب!“ ماہ رخ ایک دم ہی اداس ہو کر گویا ہوئی تو اس کے اس انداز پر اعوان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا پھر شرمندگی سے بولا۔

”سوری! میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا ہرگز نہ تھا  خیر میں ایک جنرل بات کر رہا تھا عموماً لڑکیاں باہر اجنبی بن جاتی ہیں۔“

”میں ان دھوکے باز لڑکیوں میں سے نہیں ہوں۔“

”اچھا کرتے ہیں  ایسے لوگ کی پرچھائیں سے بھی بچ کر چلنا چاہئے۔“ اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے اس کی ہاں میں ہاں ملائی پھر بولی۔ ”اوہ یاد آیا  جویریہ آج کالج کیوں نہیں آئی؟“

”وہ مام اور ڈیڈ کے ساتھ لندن گئی ہے آج رات کی فلائٹ ہے۔

”لندن!“ وہ حیرت سے اچھل پڑی۔

”جی… لندن!“ اس نے اس کی حیرت کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”ارے اس نے تو مجھ سے ذکر ہی نہیں کیا اور چلی بھی گئی؟“

”دراصل ڈیڈ سفری دستاویزات ہمیشہ سب کی تیار رکھتے ہیں اور جب بھی موڈ ہوتا ہے اسی طرح چل پڑتے ہیں اب کے جویریہ بھی ساتھ ہو گئی ان کے ساتھ… کہنے لگی آپ نے لندن کی بہت سیریں کی ہیں  بہت تعریفیں کی ہیں وہاں کی  بس وہ اس وجہ سے گئی ہے۔

”اوہ اچھا! چلیں وہ اس بہانے گھوم پھر آئے گی۔“ وہ بظاہر مسکرا کر گویا ہوئی تھی مگر دل میں بری طرح جل کر خاک ہو رہی تھی  بڑی محنت و جدوجہد کرکے اس نے پورے ورلڈ کی معلومات کتابوں  رسالوں اور اخباروں سے نکال کر دماغ میں ذخیرہ کی تھیں اور وہ خود محروم تھی ان جگہوں سے جب کہ جویریہ کتنی آسانی سے چلی گئی تھی۔ اس کو کہتے ہیں نصیب…! کوئی خواب دیکھے بنا ہی تعبیر پا لیتا ہے اور کوئی خوابوں تک بھی رسائی حاصل نہیں کر پاتا۔

”ہیلو… ہیلو میڈم! کہاں گم ہو گئی ہیں آپ؟“ اعوان کی تیز آواز پر وہ حسرتوں کے گرداب سے باہر نکلی۔ ”کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ کہاں گم ہو گئی ہیں آپ؟“ وہ پریشان لہجے میں استفسارکرنے لگا۔

”میں ٹھیک ہوں  آپ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے کیا؟“ سوچوں کو جھٹک کر وہ مسکرا کر گویا ہوئی۔

”میں پوچھ رہا تھا کہاں جائیں گی آپ؟“

”میں آپ کو راستہ بتاتی ہوں۔
“ وہ راستہ بتانے لگی۔

”آپ کی گاڑی کب لینے آتی ہے؟“ اس نے اس کی طرف دیکھتے پوچھا۔

”گاڑی ورکشاپ میں ہے شاید چند ہفتے لگیں گے۔“

”جویریہ کو آنے میں ابھی وقت لگے گا  ہو سکتا ہے وہ لوگ اور کہیں کا پروگرام بنا لیں اگر آپ کہیں تو میں آپ کو یہاں سے پک کر لیا کروں گا  میرا آفس یہیں قریب میں ہے اور آف بھی اسی ٹائم ہوتا ہے۔
“ اس کی پرامید نظریں اس کے دل کش چہرے پر لمحے بھر کو رکی تھیں۔

”آپ کیوں میری خاطر اتنی پریشانی اٹھائیں گے؟ میں ڈیڈی کو کہہ کر دوسری گاڑی منگوا لوں گی۔“ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ انکار کیا۔

”پریشانی کی کیا بات ہے؟ مجھے آپ کے کام آکر خوشی ہو گی۔“ وہ آہستگی سے گویا ہوا۔

”آپ کا ٹائم بھی تو ضائع ہو گا نا…!“

”میں نے عرض کیا نا یہیں کالج سے آگے ہی میری فرم ہے اس ٹائم فری ہو جاتا ہوں اور اسی راستے سے گزرتا ہوں کوئی حرج نہیں ہوگا اگر آپ بھی میرے ساتھ آ جائیں تو…“

ماہ رخ کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے گویا وہ کترا رہی ہو۔

”اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا۔“

”میں بہت عزت دار گھرانے سے ہوں  کل کو جویریہ کو معلوم ہوا تو…“

”ارے نہیں  آپ اس کی پروا مت کریں  اس کو معلوم نہیں ہوگا۔“ اس کے لہجے میں نیم رضا مندی پاکر وہ سرشار سا ہو گیا تھا۔

###

فیاض نے سامنے کھڑی اپنی شریک حیات کو دیکھا تھا جو لمبی چوڑی فرمائشوں کی لسٹ اسے تھما کر خاصی مطمئن تھیں۔
صباحت کی لسٹ عام دنوں میں بھی کبھی انہیں ہلکی نہیں پڑی تھی اور اب جب معاملہ ان کی بیٹی کے سسرال کا تھا تو لاکھوں کی چپت تو لازمی تھی۔ انہوں نے ایک نگاہ سرسری طور پر اس لسٹ پر ڈالی اور افکار کی شکنیں ان کے ماتھے پر ابھر آئی تھیں۔

”دس پندرہ لاکھ روپے آپ مجھے الگ سے دیں۔“ وہ سامنے بیٹھے خاوند کے احساسات سے بے نیاز کہہ رہی تھیں۔

”ابھی کسر باقی رہ گئی ہے اور روپوں کی“

صباحت نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا پھر جل کر گویا ہوئیں۔

”میں نے کون سے کروڑوں روپے مانگ لئے آپ سے جو آپ کہہ رہے ہیں۔“

”تم اچھی طرح جانتی ہوں میں ابھی ہزاروں افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں پھر تم لاکھوں کی بات کرکے کیوں میری پریشانیوں میں اضافہ کر رہی ہو۔“ انہوں نے ملامت آمیز لہجے میں کہا۔

”پریشانی کی کیا بات کرتے ہیں؟“ وہ استہزائیہ لہجے میں گویا ہوئیں۔ ”جب سے میں آپ کی زندگی میں آئی ہوں آپ کو پریشان ہی تو دیکھا ہے  اتنے سالوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا جو کبھی آپ بے فکری سے مسکرائے ہوں ورنہ میں نے آپ کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے  قہقہے لگاتے ہوئے دیکھا  میری زندگی میں آپ پریشانیوں  فکروں اور اداسیوں کے ناگ لے کر داخل ہوئے ہیں جو رات دن مجھے ڈستے ہیں  میں جس درد میں مبتلا رہتی ہوں وہ کوئی کیا جانے۔
“ ان کے لہجے میں وہ ہی مخصوص احساس محرومی تھا۔

”صباحت! جو دو کشتیوں کے سوار ہوتے ہیں وہ اسی درد میں مبتلا رہتے ہیں۔“

”کیا مطلب؟“ وہ چونک کر گویا ہوئی۔

”ایک پاؤں تم نے ماضی کی کشتی میں رکھا ہوا ہے تو دوسرا حال کی اور حال میں ہوتے ہوئے بھی ماضی کی کشتی میں سوار رہتی ہو جب کہ ماضی میرا ہے تمہارا اس سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے پھر بھی تم…“

”یہ آپ غلط کہہ رہے ہیں  ماضی سے تعلق میرا کیوں نہیں ہے؟ اس ماضی کی وجہ سے آپ مجھے میرا وہ مقام نہ دے سکے جو میرا حق تھا۔

”اوہ! اس ذکر کو رہنے ہی دو یہ نہ ختم ہوا ہے نہ شاید کبھی ختم ہوگا۔“ وہ سر جھٹکتے ہوئے گہری سانس لے کر گویا ہوئے۔“ میں کہہ رہا تھا ابھی بھابی رسماً آ رہی ہیں  اتنے لوگ تو نہیں ہوں گے ان کے ساتھ  ہم مینیو کچھ کم کر دیتے ہیں  ابھی اس معمولی سے کام میں ہی اگر ہم اتنا بجٹ استعمال کریں گے تو آگے جب بڑے کام ہوں گے تو کس طرح مینج کریں گے؟“

”مینیو تو یہی رہے گا میری بچی کی پہلی پہلی خوشی ہے  دل کے سارے ارمان نکالوں گی میں  پھر بھابی کے گھر کی بھی پہلی خوشی ہے  وہ کس طرح تنہا آئیں گی؟ ان کو بھی خاص خاص رشتے داروں کو ساتھ لانا ہو گا ورنہ طعنے ملیں گے کہ بیٹے کے سسرال پہلی مرتبہ ہی سب کو چھوڑ کر چلی گئیں۔

”اف! یہ عورتوں کے طعنے  رشتوں کی نزاکتیں…“ وہ کراہ اٹھے۔

”پھر ہم بھی خاص خاص لوگوں کو بلائیں گے  سب کو ملا کر ایک بڑی تعداد بن رہی ہے  کم لوگ تو بالکل نہیں ہوں گے۔“

”اوکے… میں کوشش کرتا ہوں کہیں سے رقم کا بندوبست کرنے کا…“

”یہ آپ کی مرضی ہے آپ کچھ بھی کریں  مجھے تو میری رقم چاہئے  بھابی دو دن بعد آ رہی ہیں  آج مجھے شاپنگ کیلئے بھی جانا ہے اور پارلر سے بکنگ بھی کروانی ہے  پرسوں سب وہیں سے تیار ہوں گے۔


”ایک کپ چائے مل جائے گی؟“ ان کے انداز میں بے زاری تھی۔

”آپ تو ابھی کھانے کا کہہ رہے تھے…؟“

”دل نہیں چاہ رہا اب… صرف چائے بھجوا دو۔“ وہ اٹھ کر بیڈ روم میں آ گئے  لاکر کھول کر دیکھا اس میں رقم بھی زیادہ نہ تھی۔ وہ کاغذات چیک کرنے لگے اور سب دیکھنے کے بعد کوئی ایسی پراپرٹی انہیں نہ ملی تھی جس کو فروخت کرکے وہ ایک بڑی رقم کا بندوبست کر سکیں۔
کاغذات لاکر میں رکھ کر وہ سرتھام کر بیٹھ گئے۔ ایک بڑی رقم حاصل کرنے کا مقصد تھا پھر عابدی سے قرض حاصل کرنا۔ گزشتہ سال سے وہ عابدی سے قرضے پر قرضے لے رہے تھے جو واپس کرنے کی سعی بھی وہ کرتے تو صباحت کسی نئے قرضے میں ان کو الجھا دیا کرتی تھیں اور وہ نیا قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ عابدی ان کے بزنس پارٹنر تھے  ان کا لیدر گارمنٹس کا بزنس تھا جو کچھ عرصے سے ٹھپ ہو رہا تھا اور وہ مالی مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے تھے اور صباحت جو کبھی بھی اچھی بیوی ثابت نہ ہو سکی تھیں انہوں نے ہمیشہ خود پر بے حسی و مظلومیت کی چادر اوڑھے رکھی تھی  ایک بار بھی ان کی پریشانیوں سے سمجھوتا نہیں کیا تھا۔

   2
0 Comments